ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی
چھاگل ہے مری خالی سوچو ہے کہاں پانی
بارش نہ اگر کرتی دریا میں رواں پانی
بازار میں بکنے کو آ جاتا گراں پانی
خود رو ہے اگر چشمہ آئے گا مری جانب
میں بھی وہیں بیٹھا ہوں مرتا ہے جہاں پانی
کل شام پرندوں کو اڑتے ہوئے یوں دیکھا
بے آب سمندر میں جیسے ہو رواں پانی
جس کھیت سے دہقاں کو مل جاتی تھی کچھ روزی
اس کھیت پہ دیکھا ہے حاکم ہے رواں پانی
چشمے کی طرح پھوٹا اور آپ ہی بہہ نکلا
رکھتا بھلا میں کب تک آنکھوں میں نہاں پانی
بہہ جاتی ہے ساتھ اس کے شہروں کی غلاظت بھی
جاروب کش عالم لگتا ہے رواں پانی
بس ایک ہی ریلے میں ڈوبے تھے مکاں سارے
فاروق کا وہیں گھر تھا بہتا تھا جہاں پانی
فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم
وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی
زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تِری دُھوپ چھاؤں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم
فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم
وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی
زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تِری دُھوپ چھاؤں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
ساتھ بارش میں لئے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
0 Comments