ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اِک تیری دید چِھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنی مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گِلہ نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزہ نہیں باقی
آپ کی یاد آتی رہی رات بھرچاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئیشمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہنکوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلےکوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر درہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہااک تمنا ستاتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
راز الفت چھپا کے دیکھ لیادل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہےآپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئےان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نےسب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکیعشق کو آزما کے دیکھ لیا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیاوہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئےوہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کیجس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئیسر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا
ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہواکسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا
نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا
جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی
سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا
ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا
کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھےبے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کیہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباںبُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیاہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہمکیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھاورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیضہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
Faiz Ahmed Faiz New beautiful poetry images shayri whatsapp status tiktok stories
راز الفت چھپا کے دیکھ لیاراز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا
فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہان دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا
ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
جہان دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں
یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہو چکا ایسے نہیں ہوتا
نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل مرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ میرے نہ آنکھیں مری نہ چہرہ مرا
یہ کس کا عکس مرے آئنے میں آیا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
ہے واقعہ ہدف سیل آب تھا کوئی اور
مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے
وہ راز وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر
یہ خواب ہجر ہے جو جاگتے میں آیا ہے
جمالؔ دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے
نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جو ہجر و وصل مرے تجربے میں آیا ہے
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے
نہ ہاتھ میرے نہ آنکھیں مری نہ چہرہ مرا
یہ کس کا عکس مرے آئنے میں آیا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
ہے واقعہ ہدف سیل آب تھا کوئی اور
مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے
وہ راز وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر
یہ خواب ہجر ہے جو جاگتے میں آیا ہے
جمالؔ دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے
حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے کب سے
پر کرو جام کہ شاید ہو اسی لحظہ رواں
روک رکھا ہے جو اک تیر قضا نے کب سے
فیضؔ پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد
لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کے فسانے کب سے
حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے کب سے
پر کرو جام کہ شاید ہو اسی لحظہ رواں
روک رکھا ہے جو اک تیر قضا نے کب سے
فیضؔ پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد
لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کے فسانے کب سے
تو کہاں جائے گی یوں آنکھ بچا کر اس سے
اب بچھڑناہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے
وہ بگڑتا ہے تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لئے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے
توکہانی میں کہیں ہے کہ نہیں ہے اے دل
پوچھنا ہو گا کسی روز بٹھا کر اس سے
کس طرح اس پہ ترے درد کا منظر کھلتا
تو محبت بھی تو کرتی تھی چھپا کر اس سے
جس طرح لہر کنارے کو چھوئے آخری بار
ایسا محسوس ہوا ہاتھ ملا کر اس سے
تو کہاں جائے گی یوں آنکھ بچا کر اس سے
اب بچھڑناہے تو پھر خود کو جدا کر اس سے
وہ بگڑتا ہے تو دنیا ہی بگڑ جاتی ہے
اس لئے رکھنی پڑی مجھ کو بنا کر اس سے
توکہانی میں کہیں ہے کہ نہیں ہے اے دل
پوچھنا ہو گا کسی روز بٹھا کر اس سے
کس طرح اس پہ ترے درد کا منظر کھلتا
تو محبت بھی تو کرتی تھی چھپا کر اس سے
جس طرح لہر کنارے کو چھوئے آخری بار
ایسا محسوس ہوا ہاتھ ملا کر اس سے
Faiz Ahmed Faiz was born in Sialkot, British India (now in Pakistan). Faiz was the son of Sultan Mohammed Khan who had risen from a poor shepherd to become a barrister through his scholastic prowess. His father though passed away in 1913.
Faiz Ahmed Faiz was born in Sialkot, British India (now in Pakistan). Faiz was the son of Sultan Mohammed Khan who had risen from a poor shepherd to become a barrister through his scholastic prowess. His father though passed away in 1913.
)
)
2 Comments
Bhai is pa to abhi b AdSense no laga
ReplyDeletevery nycc post keep up the work
ReplyDeleteUrdu poetry